ابتدا سے ہی اردو شعرو ادب میں تمام مذاہب کے رہنماؤں کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ ہندوستان کے تمام مذاہب کے روحانی پیشواؤں اور ان کی خدمات کا ذکر اردو شاعری اور اردو ادب میں ملتا ہے۔ یہاں رامائن اور گیتا جیسی مقدس کتابوں کا اردو میں ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں تراجم کئے گئے۔ یہ بھی واضح رہے کہ رام چرت مانس لکھنے والے گوسوامی تلسی داس اکبر کے درباری اور اپنے زمانے کے جید عالم و شاعر عبد الرحیم خان خاناں کے دوستوں میں تھے۔ وہی عبد الرحیم خان خاناں جو ہندی ادب میں ”رحیم کَوی“ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں اور جن کے دوہے نصاب میں آج بھی شامل ہیں۔
اردو شاعری میں نانک، چشتی، گوتم، رام تیرتھ، کرشن اور رام پہ بہت خوبصورت کلام موجود ہے۔ بھگوان کرشن ہمیشہ سے اردو شاعروں کی پسند رہے۔ اور اگر مسلمانوں کی بات کریں تو بہت پہلے رسخان نام کے کوی نے کرشن بھگتی میں ڈوب کر وہ شاعری کی ہے کہ آج بھی اہل نظر سر دھنتے ہیں۔ ان کے علاوہ نظیر ؔ اکبر آبادی اور مولانا حسرت ؔ موہانی نے بھی بھگوان کرشن کو اپنی شاعری میں بہت اہمیت دی ہے۔ اردو کے مشہور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”جنم اشٹمی ہندوؤں کا ایک اہم تہوار ہے۔ بھادوں کے مہینے میں وباؤں کا زمانہ سر پہ آ جاتا ہے اور جان کی سلامتی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ عین اسی زمانے میں ہندوؤں کے مقبول اوتار شری کرشن کا جنم ہوا تھا۔ شری کرشن وشنو بھگوان کے نویں اوتار ہیں جو مصیبت کی گھڑی میں اپنے چاہنے والوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ چنانچہ جنم اشٹمی کے موقع پر شری کرشن کے جنم کی خوشی منا کر تمام انسانوں کی بہتری اور حفاظت کے لئے دعا مانگی جاتی ہے اور بھجن کیرتن کئے جاتے ہیں۔“
اسی لئے کرشن جنم اشٹمی کے حوالے سے اردو شاعروں نے اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ متھرا کے قریب ایک قصبہ ہے بلدیو جی جو کہ کرشن جی کے بھائی بلدیو کے نام پر مشہور ہے۔ نظیر ؔ اکبر آبادی نے نہ صرف کرشن جی پر نظمیں لکھی ہیں بلکہ انھوں نے بلدیو جی کے میلہ پر بھی خوبصورت نظم لکھی ہے۔
کیا وہ دل بر کوئی نویلا ہے
ناتھ ہے اور کہیں وہ چیلا ہے
موتیا ہے چنبیلی بیلا ہے
بھیڑ انبوہ ہے اکیلا ہے
شہری قصباتی اور گنویلا ہے
زر اشرفی ہے پیسا دھیلا ہے
ایک کیا کیا وہ کھیل کھیلا ہے
بھیڑ ہے خلقتوں کا ریلا ہے
رنگ ہے روپ ہے جھمیلا ہے
زور بلد یو جی کا میلا ہے
یہاں تک کہ نعت کے مشہور شاعر محسن ؔ کاکوروی جب قصیدہ ”مدیح خیرالمرسلین“ کی تشبیب میں متھرا کا ذکر کرتے ہیں تو عقیدت مندوں کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
جنگ آزادی کے مشہور سپاہی، اردو کے مایا ناز شاعر مولانا فضل الحسن حسرت ؔ موہانی کرشن جی کے بڑے بھگت تھے۔ وہ اکثر متھرا جایا کرتے تھے۔ متھرا کی ہولی انھیں بے حد پسند تھی۔ کرشن جی کی شخصیت میں انھیں بڑی دلکشی نظر آتی تھی۔ کرشن کو انھوں نے امام عشق کے لقب سے یاد کیا ہے۔ حیدر آباد کے البیلے شاعر اور مشہور ترقی پسند ادیب مخدوم محی الدین جب آکاش میں جھلملاتے ستاروں کو دیکھتے تو انھیں نیل تن کرشن کے پہلو میں مچلتی گوپیاں یاد آجاتی تھیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کرشن جی کو اردو شعر و ادب میں کس قدر احترام اور عقیدت سے یاد کیا گیا ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں).