سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی، شیخ حسینہ واجد اور بنگلہ دیش
ممتاز سیاستدان اور سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ بس ان کی یادیں بچی ہیں۔ لوگ پیار سے انھیں پرنب دا کہتے تھے۔ وہ ایک ایسے سیاستدان تھے جنھیں ہر سیاسی جماعت کے لوگ پیار کرتے تھے۔ پرنب دا صدر جمہوریہ ہند بننے سے پہلے ہندوستان کی مختلف وزارتوں کو وقار بخش چکے تھے۔ وہ مرکزی حکومت میں وزیر مالیات، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع جیسی اہم وزارتوں کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔ اور اپنے دور وزارت میں کچھ انمٹ نقوش قائم کر کے آگے بڑھے۔ پرنب دا کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو انھیں اپنے ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا تھا۔ ان کی پچاس سالہ سیاسی زندگی بے داغ رہی، یہی اپنے آپ میں بڑی بات تھی۔ ورنہ سیاست وہ کاجل کی کوٹھری ہے جس میں داخل ہونے والا شاید ہی بے داغ نکلے۔
پرنب مکھرجی ایک سلجھے ہوئے سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی تھے۔ بطور وزیر مالیات انھوں نے ملک میں ایسی اصلاحات کیں جن کے بہترین دور رس نتائج سامنے آئے۔ ان کی قابلیت کو شریمتی اندرا گاندھی خوب پہچانتی تھیں۔ انھوں نے پرنب مکھرجی پہ اعتماد کیا اور انھیں اہم ذمہ داریاں سونپ کر ملک کی خدمت کا موقعہ دیا۔
پرنب مکھرجی کو یوں تو ہندوستان کے ہر خطے کے لوگ پیار کرتے تھے اور پرنب دا کا دل بھی اتنا بڑا تھا کہ اس میں ہر ہندوستانی سما جائے۔ لیکن بنگال اور بنگالی زبان و تہذیب و ثقافت سے انھیں ایک خاص لگاؤ تھا۔ اپنے اس پیار کو پرنب دا نے کبھی چھپایا نہیں ۔ اپنے بنگالی پیار کو وہ ایک مثبت تہذیبی رنگ عطا کرتے رہے۔ اس سچائی سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ بنگال نہ صرف اپنے رسگلوں کی مٹھاس کے لئے جانا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی موسیقی کی مٹھاس کے لئے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے ۔پرنب دا اس بنگالی مٹھاس کی زندہ مثال تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ سورا مکھرجی خود ایک بہت اچھی رقاصہ تھیں۔ رقص سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔ پورا مکھرجی خاندان بنگالی تہذیب و ثقافت کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے رہا۔ پرنب دا کے بیٹے ابھیجیت مکھرجی اور سندیپ مکھرجی اور ان کی بیٹی سرمشٹھا مکھرجی نے بھی ہمیشہ اپنی بنگالی وراثت پر فخر کیا ہے ۔شرمسٹھا مکھرجی خود ایک بہت اچھی رقاصہ ہیں۔ انھیں کتھک رقص میں مہارت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ پرنب مکھرجی کی اہلیہ سورا مکھرجی کی پیدائش بھدرا بیلا گاؤں نریل میں ہوی تھی جو اب بنگلہ دیش ہے۔ یہ بھی شاید ایک وجہ ہو کہ پرنب مکھرجی کا بنگلہ دیش سے ایک خاص لگاؤ ہمیشہ سے رہا ہے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد کا پرنب مکھرجی اور ان کے اہل خانہ سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے والد سمیت ان کے گھر کے تمام افراد قتل کر دے گی تھے ۔ غیر ملک میں ہونے کی وجہ سے شیخ حسینہ واجد اس حادثے میں ہلاک ہونے سے بچ گئی تھیں ۔ اس کے بعد پرنب مکھرجی کی کوشش سے شیخ حسینہ واجد اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ دہلی میں مقیم تھیں ۔ اگست 2015 میں جب محترمہ سورا مکھرجی کا انتقال ہوا تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد خصوصی طیارے سے دہلی پہنچ کر سورا مکھرجی کی آخری رسومات میں شریک ہویں اور پرنب مکھرجی خاندان سے اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید استحکام بخشا۔بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن اور اہل خانہ کے قتل کے بعد شیخ حسینہ واجد تقریباً6 سال دہلی میں رہیں۔ اس دوران ان کے سب سے بڑے ہمدرد اور رہنما پرنب مکھرجی ہی تھے۔ پرنب دا کی اہلیہ محترمہ سورا مکھرجی اور شیخ حسینہ واجد کے درمیان ایک والہانہ محبت کا رشتہ تھا۔ پرنب مکھرجی کی کوشش سے شیخ حسینہ کے شوہر واجد صاحب کو اچھی جاب مل گئی تھی۔ وہ نیوکلیئر ساءنٹست تھے۔ وقت گزاری کے لئے شیخ حسینہ نے دہلی کے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت بھی اختیار کر لی تھی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو کے بنگلہ یونٹ میں کام کرتی تھیں اور مزے کی بات یہ تھی کہ ایک زمانے تک آل انڈیا ریڈیو کے ملازمین کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جو خاتون ان کے ساتھ کام کر رہی ہے وہ بنگلہ دیش کے سب سے بڑے لیڈر اور سابق صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جس میں شیخ حسینہ واجد اور سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کے درمیان محبت عقیدت اور احترام کا ایک مضبوط رشتہ نظر آتا ہے ۔ پرنب مکھرجی کی اہلیہ محترمہ سورا مکھرجی شیخ حسینہ واجد کو اپنی بیٹی کی طرح مانتی تھیں۔ گویا کہ پرنب مکھرجی اور بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے درمیان ایک ایسا رشتہ تھا جو دو ملکوں کا رشتہ بھی تھا اور دو خاندانوں کا آپسی رشتوں بھی۔
اس ذاتی رشتے کو ماہرین اس نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ یہ دو ملکوں کے آپسی رشتوں میں بدل جاتے ہیں ۔ اصل میں یہ رشتے بنگلہ زبان اور بنگلہ تہذیب کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے ۔ بنگالی زبان بولنے والے اور بنگلہ تہذیب کی پاسداری کرنے والے سرحد کے اس طرف ہوں یا اس طرف ان میں کچھ ایسی قدریں مشترک ہیں جو کسی طرح الگ نہیں کی جا سکتی ہیں۔ اور پرنب مکھرجی کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ سراپا بنگلہ تہذیب کے پروردہ تھے۔ درگا پوجا کے وقت وہ ہر ضروری کام چھوڑ کر اپنے گاؤں پہنچتے تھے ، وہاں وہ اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ بڑی عقیدت سے درگا پوجا مناتے تھے۔ یہ ہمیشہ سے ان کا معمول تھا۔ وہ اپنے لوگوں سے اس طرح گھل مل جاتے تھے کہ لوگ حیران ہوتے کہ ایک ملک کا سربراہ اس طرح عام لوگوں کے درمیان ہے۔ اس طرح کی بہت سی خوبیاں تھیں جو سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔.