اٹل بہاری واجپائی ایک عظیم انسان اور عظیم سیاسی رہنما تھے۔ وہ ملک کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔ ہر طبقے میں ان کی مقبولیت تھی۔ وہ ایک بہترین مقرر اور خطیب بھی تھے۔ لوک سبھا میں جب بھی اسپیچ دیتے تو ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تعریف کرنے سے خود کو نہیں روک پاتے تھے۔
اٹل بہاری واجپائی نے شادی نہیں کی تھی۔ انھوں نے ملک و قوم کی خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا۔ ان کا تعلق یوں تو مدھیہ پردیش کے ضلع گوالیار سے تھا۔ لیکن اتر پردیش سے ان کا ایک خاص لگاؤ تھا۔ کانپور سے انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بلرام پور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اور بعد میں لکھنؤ سے لوک سبھا کے رکن رہے۔ اس طرح اتر پردیش سے ان کا تعلق زیادہ رہا۔ وہ آر ایس ایس کے پرچارک رہے۔ آر ایس ایس کے اخبار کے لئے کام کیا۔ لال کرشن اڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی ایک ساتھ اخبار کے لئے کام کرتے تھے۔
اٹل بہاری واجپائی نہ صرف ایک بہت اچھے خطیب اور مقرر تھے بلکہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ہندی میں شائع ہوا تو ہر طرف اس کی پذیرائی ہوئی۔ بعد میں اردو سمیت کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کی کوئی بھی تحریر فکر سے خالی نہیں۔ ان کی فکر دراصل انسانیت کی فلاح کی فکر تھی۔ وہ ملک کے سچے سپاہی تھے۔ وہ بات کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ہندی زبان پر تو ان کی زبردست گرفت تھی ۔ اس کے علاوہ اپنی گفتگو میں اردو کے خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔ انگریزی زبان پر بہی عبور حاصل تھا۔ لیکن ہمیشہ ہندی زبان کو اہمیت دیتے تھے۔ یہاں تک کہ یونایٹیڈ نیشن میں بھی وہ ہندی میں تقریر کر کے اہل وطن سے واہ واہی لوٹ چکے تھے۔ ان کے اندر بلا کی ذہانت اور حس مزاح تھا۔ وہ کسی بات کو اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ سننے والا مبہوت ہو جاتا تھا۔
ان پہ کبھی کسی طرح کی بد عنوانی کا الزام نہیں لگا۔ وہ معیار سے گر کے کبھی کوئی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ سیاست ان کے لئے ملک کی خدمت کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ سیاست میں اعلیٰ اقدار کے تحفظ کے امین تھے۔ ان کا واضح خیال تھا کہ ملک سب سے پہلے ہے۔ ملک کی سالمیت کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔ سبھی سیاسی جماعتوں میں ان کے چاہنے والے تھے۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ جب اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں تو یو این او میں ہندوستان کی نمائندگی کے لئے انھوں نے اٹل بہاری واجپائی کو بھیجا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی نوجوان اٹل بہاری واجپائی کی تعریف کی تھی۔
جس زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں تھی اس زمانے میں بہت سے سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ رکھنے کے لئے اٹل بہاری واجپائی جیسی دل پذیر شخصیت کا ہونا بہت ضروری تھا۔ اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت کا ہی کمال تھا کہ تیرہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکیں۔
اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کے طور پر جو خدمات انجام دیں وہ نا قابل فراموش ہیں۔ پوکھرن میں اٹامک تجربہ کر کے انھوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہندوستان امن و شانتی کا ملک ہے لیکن وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ دنیا کے ہر دباؤ کو درکنار کر کے اٹل بہاری واجپائی نے راجستھان کے پوکھرن میں ایٹم بم کا تجربہ کرنے کی اجازت دی ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ہندوستان کس طرح مصیبت کی گھڑی میں ایک ساتھ کھڑا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں اٹل بہاری واجپائی بہت خاموش ہو گے تھے۔ وہ کسی پبلک مٹنگ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ زندگی کے تچند برس انھوں نے بہت خاموشی سے بسر کرنے کے بعد 16 اگست سنہ 2018 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے انتقال سے ہندوستان نے ایک عظیم سیاسی رہنما اور عظیم بیٹا کھو دیا ۔ ملک آج بھی اپنے عظیم سیاسی رہنما اور ممتاز مقرر کو یاد کرتا ہے۔ ملک آج اٹل بہاری واجپائی کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے ۔ وہ لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی زندہ ہیں۔ ان کے خواب زندہ ہیں۔.
Protest demonstrations broke out across different areas of Pakistan-occupied Gilgit-Baltistan after Friday prayers, with thousands…
Jamil Maqsood, the President of the Foreign Affairs Committee of the United Kashmir People's National…
The 6th meeting of the ASEAN-India Trade in Goods Agreement (AITIGA) Joint Committee concluded in…
The US Department of Homeland Security (DHS), on behalf of the Forced Labor Enforcement Task…
A delegation from the Tibetan Parliament-in-Exile (TPiE), led by Speaker Khenpo Sonam Tenphel and accompanied…
On the sidelines of the 2nd India-CARICOM Summit, leaders of the member countries witnessed a…