بہت سے کشمیری ایسے ہیں جنھوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنی کامیابی کی ایک نئی کہانی لکھی ہے۔ سید مختار احمد ان میں سے ایک ہیں۔ مختارکپوارہ کے رہنے والے ہیں، وہ نہ صرف اپنے گاؤں میں بلکہ آس پاس کے علاقوں میں ایک رول ماڈل بن کر ابھرے ہیں۔ لوگ مختار سے ان کی کامیابی کا راز جاننا چاہتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مختار نے آج ملک بھر کی میڈیا کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ دراصل مختار نے آرگینک کھیتی کے ذریعے نہ صرف اپنی پہچان بنائی ہے بلکہ وہ اقتصادی طور پر بھی بہت فائدے میں ہیں۔ ہر وقت اپنی پریشانی اور اپنی غربت کا رونا رونے کے بجائے مختار احمد نے اپنی محنت اور لگن سے ایک نظیر قائم کر دی ہے۔
سید مختار احمد کپوارہ سے آٹھ کیلو میٹر دور گاؤں ڈیڈی کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد مظفر ایک چھوٹے کسان تھے، اپنے چار بھایؤں کے ساتھ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے اور کھیتی کرنے کے علاوہ جنگلوں سے سوکھی لکڑیاں چن کر لانا ان کا پیشہ تھا۔ مختار پہلی جنوری 1962کو پیدا ہوئے، ان کی دو بہنیں ہیں۔ مختار کے بچپن میں ان کے اہل خاندان سب کھیتی کرتے تھے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ نوجوان مختار بھی کبھی سیب کے باغوں میں تو کبھی دھان کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ وہیں سے مختار کو کھیتی کی عادت پڑ گئی۔ کھیتی کے کاموں کو انھوں نے بوجھ نہیں سمجھا بلکہ وہ اسے اپنی عادت میں شامل کرتے گئے۔
بیس سال کی عمر میں 1982میں وہ جموں و کشمیر پولیس میں بھرتی ہوئے۔ پہلے سری نگر اور پھر کپوارہ کے کنٹرول روم میں انھوں نے ڈیوٹی کی۔ پولیس کی نوکری کے دوران انھوں نے دہشت گردی کے بڑھنے کا سارا منظر اپنی آ نکھوں سے دیکھا۔ وہ ہمیشہ سے محسوس کرتے تھے کہ سماجی ترقی کے ذریعے سماج میں امن سکون لایا جا سکتا ہے۔ تقریباً پچیس سال تک پولیس کی نوکری کرنے کے بعد سنہ 2006میں سید مختار احمد نے پولیس کی نوکری سے رٹائرمنٹ لے لیا۔ انھوں نے اپنے گاؤں ڈوڈی کوٹ کے پاس نرسری میں کام شروع کیا۔ انھوں نے کھیتی کے کام کو نئے طریقے سے کرنے کا پلان بنایا۔ وہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ سے رابطہ قائم کر کے ورکشاپ اٹینڈ کرنے لگے۔ اس سے انھیں آرگینک کھیتی کے بارے میں علم ہوا۔ انھوں نے کھیتی کے روایتی طریقوں کو چھوڑ کر نئی تکنیک سے کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس فیصلے نے ان کی زندگی بدل دی۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے اداروں کی مدد سے شہد کی مکھیوں کا پالنے کا کام سیکھا۔ انھوں نے چھوٹے بجٹ سے کام شروع کیا اور آج وہ چالیس کنٹل شہد ہر سال پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے شہد کی بہترین کوالیٹی کا حال یہ ہے کہ فوج اور پولیس کے تمام بڑے افسران ان کے یہاں پیدا ہوئے شہد کا استعمال کر رہے ہیں۔ صوبہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس بھی شہد سید مختار احمد کے یہاں سے منگاتے ہیں۔
سید مختار احمد نے آرگینک طریقے سے پھل اور سبزیاں اگانے کا کام کیا۔ حکومت ہند اور حکومت جموں و کشمیر کے ایگریکلچر ڈپارٹ منٹ سے انھیں بھرپور مدد ملی۔ انھوں نے آرگینک طریقے سے سیب، ناشپاتی، کیوی، چیری،ایو کیڈو اور انجیر کے درخت اگائے ہیں۔ علاقے کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کو ان کے کھیتی کے کام میں روزگار ملا ہے۔ ہر سال وہ سو خاندانوں کو آرگینک کھیتی کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس سے ان خاندانوں کی زندگی میں بھی خوشحالی آتی ہے۔ جن خاندانوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی انھیں مختار احمد مفت میں پھلوں اور سبزیوں کے بیج دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک سپر پاور نہیں بن سکتا جب تک وہ اشیائے خوردنی کے معاملے میں خود کفیل نہ ہو۔ اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بہت سارے سیمینار اور ورک شاپ نہیں اٹینڈ کر سکے لیکن ان کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ علاقے کے لوگ انھیں پسند کرتے ہیں اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بچے سب گریجیو ایٹ ہو چکے ہیں۔ اپنی محنت لگن اور وژن سے مختار احمد نہ صرف کپوارہ کے علاقے میں بلکہ پورے کشمیر میں ایک مثال بن چکے ہیں۔ ان کی کامیابی میں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ ہر کشمیری کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ محنت اور ایمانداری سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو حکومت ہر وقت ان کی مدد کو تیار ہے۔ وہ خود اپنی زندگی بدل سکتے ہیں، اپنے اہل خانہ کی زندگی کو خوشحال بنا سکتے ہیں اور دوسروں کے لئے مثال بن سکتے ہیں جس طرح سید مختار احمد آج ایک مثال بن کر سامنے آئے ہیں۔
.