اُردو ادب، مسلم خواتین اور پاکستان
اردو ادب میں ایک بہت بڑا نام محترمہ قرۃالعین حیدر کا ہے۔جی ہاں، وہی آگ کا دریا لکھنے والی قرۃالعین حیدر۔ چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، سیتا ہرن، گردش رنگ چمن اور کار جہاں دراز ہے جیسے بہترین ناول لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اس ملک میں وہ مان سمان اور عزت و شہرت ملی جو کسی بھی مصنف یا مصنفہ کا خواب ہو سکتا ہے۔ محترمہ قرۃ العین حیدر ہندوستان کی مشہور ترین اور مقبول ترین مصنفہ رہی ہیں۔ انھیں دیگر انعامات و اعزازات کے ساتھ ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ بھی ملا۔ لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے کہ محترمہ قرۃ العین حیدر کو پاکستان چھوڑ کے ہندوستان واپس آنا پڑا تھا۔ قرۃ العین حیدر کے آبا و اجداد کا تعلق ضلع بجنور کے نہٹور سے تھا۔ ان کے والد اپنے زمانے کے مشہور افسانہ نگار سید سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جوش ؔ ملیح آبادی، ساحر ؔ لدھیانوی اور فیض احمد فیضؔ کی طرح قرۃالعین حیدر بھی پاکستان چلی گئی تھیں۔ اب ذرا ایک فرق دیکھئے۔ ساحر لدھیانوی اور قرۃ العین حیدر واپس ہندوستان آئے۔ساحر لدھیانوی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے کامیاب ترین نغمہ نگار بنے۔ ممبئی میں ایک شاندار بنگلے میں رہتے تھے۔ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کر رہے تھے، مشاعرے پڑھ رہے تھے۔ اپنے مجموعوں ”تلخیاں“ اور ”پرچھائیاں“ کی سلور جبلی منا رہے تھے۔ اور قرۃ العین حیدر گیان پیٹھ جیسا بڑا ایوارڈ حاصل کر رہی تھیں۔ جبکہ ادھر پاکستان میں جوش ملیح آبادی اپنی قسمت کو روتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اور فیض نے کتنی مدت پاکستانی جیلوں میں گزاری وہ دنیا کو معلوم ہے۔ دراصل یہی فرق ہے پاکستان اور ہندوستان کی فضاؤں میں۔ اردو ادب میں خواتین کے رول کی چرچہ کرتے ہوئے قرۃالعین حیدر کی یاد یوں آ گئی کہ وہ سب سے توانا آواز ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اردو ادب میں خواتین کا بڑھتا رحجان ہمیں کس طرف لے جا رہا ہے اور ہم خواتین کے رول کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
اُردو ادب میں خواتین کے بڑھتے رجحان کی نشاندہی دو سطح پہ کی جا سکتی ہے۔ ایک تصنیف و تالیف اور تخلیق کی سطح پر اور دوسری بطور قاری حصہ داری کے طور پر۔ ہر دو سطح پہ خواتین کی حصہ داری کا رجحان بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی زیادہ واضح نظر آنے لگا۔ ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اردو ادب پڑھنے کا رجحان بھی خواتین میں تیزی سے بڑھا ہے جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔ اکیسویں صدی کی اِن دو دہائیوں میں تو خواتین نے اردو ادب کے منظر نامے پہ اپنی بھرپور اور با معنی موجودگی درج کرائی ہے۔ نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے بھی خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ رسائل و جرائد کے آن لائن ایڈیشن نے خواتین میں اردو ادب پڑھنے کے شوق کو پروان چڑھایا ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری و چوتھی دہائی میں جب ہندوستان میں ریڈیو کا چلن عام ہونے لگا تو یہ بات سامنے آئی کہ اب کتاب و رسائل پڑھنے کا چلن ختم ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا۔ لیکن جس رفتار سے ریڈیو نے ترقی کی اسی رفتار سے اردو ادب کی کتابیں بھی منظر عام پر آنے لگیں۔ لیتھو پریس کے بعد جب آفسیٹ پریس آیا تب کتابوں کے ساتھ رسائل و جرائد کی اشاعت میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ کئی ادبی و نیم ادبی رسائل کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان رسائل کے پڑھنے والوں میں خواتین کی حصہ داری پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔
جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کی مدد سے آج خواتین جو ادب پڑھ رہی ہیں اس کے اعلیٰ درجہ کے ادب ہونے میں یقینا شک ہے۔ لیکن ادب کی درجہ بندی ناقدین ادب کا کام ہے۔ ادب عالیہ، لوک ادب، تفریحی ادب، جاسوسی ادب، سِرّی ادب، پاپولر لٹریچر یا کوئی بھی ادب پڑھنے کا رجحان اگر خواتین میں بڑھ رہا ہے تو یہ خوش آئیند بات ہے۔ خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا رجحان جس تیزی سے بڑھے گا اسی تیزی سے ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ اردو ادب کی جتنی اصناف ہیں ان میں غزل، ناول اور افسانہ ایسی اصناف ہیں جنھیں خواتین دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی یا سفر نامہ جیسی اصناف عام طور پر وہی خواتین پڑھتی ہیں جنھیں کسی کالج یا یونیورسٹی کی نصابی ضرورتوں کو پورا کرنا ہو۔افسانہ اور ناول کا معاملہ یہ ہے کہ بانو قدسیہ، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم اور رضیہ بٹ جیسی فکشن لکھنے والیوں کی کتابیں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اردو میں ناول نگاری کا آغاز کرنے والے ڈپٹی نذیر احمد اور مصور غم کے لقب سے نوازے گئے راشد الخیری جس طرح خواتین کی اصلاح کے لئے ناول اور افسانے لکھ رہے تھے، اس کی آج ضرورت نہیں ہے۔ آج کا سماج،خواتین کے لئے وہ سوچ نہیں رکھتا ہے جو راشد الخیری کے زمانے میں تھا۔ آج کی خوا تین اپنے حقوق سے واقف ہیں اور اپنی زندگی کی سمت و رفتار طے کرنے کی قوت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔
اردو ادب کی تخلیق میں خواتین نے جو کارہائے نمایاں انجام دی ہیں اس پہ اکثر گفتگو ہوئی ہے، مضامین اور مقالے لکھے گئے ہیں، کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ کے ہر دور میں خواتین کی حصہ داری رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس حصہ داری کا تناسب بہت کم رہا ہے۔ اردو شاعری میں خواتین کی بات آتی ہے تو ہم ماہِ لقا بائی چنداؔ سے پروین شاکر تک درجنوں نہیں سیکڑوں نام گنوا دیتے ہیں۔ لیکن کیا اردو شاعری کی تاریخ میں میر، ؔ غالب ؔ اور اقبال ؔ کے مقام و مرتبہ کی کوئی شاعرہ نظر آتی ہے؟ شاید نہیں۔ اس کی تاریخی،
سماجی،ثقافتی اور نفسیاتی وجوہات پہ بات کی جا سکتی ہے، لیکن حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی ہے۔ شاعری کے مقابلے اردو فکشن نگاری میں خواتین کے کارنامے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بات پاپولر ادب کی ہو یا اعلیٰ ادب کی، ہر دو سطح پر خواتین نے اپنی ناقابل فراموش موجودگی درج کرائی ہے۔ رضیہ بٹ، بشریٰ رحمن، عفت موہانی اور واجدہ تبسم جیسی فکشن لکھنے والی خواتین نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں رہی ہے۔ اردو افسانہ اور ناول کے حوالے سے صرف عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کا نام لکھ دیا جائے تو تاریخ کے صفحات پرچاند سورج کی طرح نظر آئیں گی۔ حالانکہ حیدر آباد دکن کی رہنے والی طیبہ بیگم نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہی تین ناول لکھ کر یہ واضح کر دیا تھا کہ اردو فکشن کے میدان میں خواتین بڑے کارنامے انجام دیں گی۔ طیبہ بیگم کے راستے پہ چل کے ہی بنت نریندر ناتھ برج کماری، حجاب امتیاز علی، اور نذر سجاد حیدر جیسی خواتین نے اردو ناول کو کچھ نئے موضوعات دئے۔
اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک نے خواتین کو ایک نیا پلیٹ فارم عطا کیا۔ 1936میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کے پہلے جلسے میں بطور صدر منشی پریم چند نے جو خطبہ دیا اس نے اردو ادب کے سمت و رفتار کا کسی حد تک تعین کر دیا۔ یہاں منشی پریم چند نے حُسن کا معیار بدلنے کا جو تاریخی جملہ کہا اس نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ترقی پسند تحریک نے خواتین میں خود اعتمادی پیدا کی۔ انھیں ادب کی دنیا میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اسی حوصلے نے ڈاکٹر رشید جہاں سے وہ افسانے لکھوائے جن کو پڑھ کے سماج کا ایک طبقہ بلبلا اُٹھا۔ ڈاکٹر رشید جہاں، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم جیسی فکشن نگاروں نے سماج کو آئینہ دکھانے کا کام کیا۔ شجر ممنوعہ کو چھونے کا حوصلہ دکھایا۔ انھی کے ساتھ قرۃ العین حیدر اپنی ایک الگ دنیا آباد کرتی ہیں جس میں ”چاندنی بیگم“ ”گردش ِ رنگ چمن“ کی شکار ہوتی ہیں۔ وہ جب ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو“ کی صدا بلند کرتی ہیں تو ”میرے بھی صنم خانے“ ”آگ کا دریا“ میں بہہ جاتے ہیں۔ ”یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے“ اور ”فوٹو گرافر“ جیسے لازوال اور شاہکار افسانے لکھ کر قرۃالعین حیدر نے اردو فکشن کو عالمی فکشن میں ممتاز مقام عطا کر دیا۔ اس فہرست میں جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، اور سلمیٰ صدیقی جیسی اعلیٰ پائے کی فکشن نگاروں کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ سبھی بیسویں صدی کی اہم اردو ادیبائیں ہیں جنھوں نے اردو ادب کے دامن کو مالامال کیا ہے۔ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں پہ نظر ڈالیں تو اردو ادب کے تئیں خواتین میں جو رجحان بڑھا ہے اس میں جدید موضوعات پر لکھنے والی خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ ذکیہ مشہدی، ثروت خان، صبیحہ انور، ترنم ریاض اور نگار عظیم جیسی فکشن نگاروں نے نئے موضوعات کو برتا ہے۔ نئی نسل کی خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا رجحان جو نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ خواتین افسانہ نگار ہیں۔ آج کی خواتین جن مسائل سے دوچار ہیں، ان مسائل کو مرکز میں رکھ کر جو فکشن لکھا جا رہا ہے وہ مقبول بھی ہو رہا ہے اور اس کی معنویت بھی ظاہر ہو رہی ہے۔
مختصر طور پہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب میں خواتین کا بڑھتا رجحان ایک خوش آئیند پہلو ہے۔ تخلیق، تحقیق اور تنقید کی سطح پہ خواتین آج پہلے سے زیادہ سرگرم نظر آرہی ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے ”خواتین دنیا“ جیسے رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ خواتین اہل قلم کی اپنی تنظیمیں اردو ادب کے میدان میں سرگرم ہیں۔ بطور قاری بھی خواتین کی سرگرمی قابل ستائش ہے۔ اس رفتار کو ذرا اور بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو ادب میں خواتین کا یہ بڑھتا رجحان کم نہ ہونے پائے۔
.